غریبوں کی جو ثروت ہیں ، ضعیفوں کی جو قوت ہیں
انہیں عالم کے ہر دکھ کی دوا کہنا ہی پڑتا ہے
انہیں فرماں روائے انس و جاں کہتے ہی بنتی ہے
انہیں محبوبِ ربِ دوسرا کہنا ہی پڑتا ہے
زہے تاثیر ، ان کا نام نامی جب لیا جائے
لبوں کو لازما صلِ علی کہنا ہی پڑتا ہے
جہاں بھر کو کیا سیراب جن کے فیضِ بے حد نے
انہیں دریائے الطاف و عطا کہنا ہی پڑتا ہے
کیا بیڑا جنہوں نے پار آ کر نوع انساں کا
انہیں انسانیت کا نا خدا کہنا ہی پڑتا ہے
جنہوں نے بزم امکاں سے مٹائی کفر کی ظلمت
انہیں تنویرِ حق ، نور الہدیٰ کہنا ہی پڑتا ہے