سُنت کا ترے رخ پہ اگر نور نہیں ہے
محبوب کو یہ عاشقی منظور نہیں ہے
کس منہ سے کرتا ہے دعویٰء غلامی
آقا کی محبت سے جو مجبور نہیں ہے
باطن میں نہیں پائے گا تو عشق کی رونق
ظاہر تیرا سُنت سے جو معمور نہیں ہے
تو خوش نہیں کرتا ہے جو سرکار کے دل کو
جب ہی تو تیرا قلب بھی مسرور نہیں ہے
غفار کو ناراض جو کرتا ہے مسلسل
ہے اس کی علامت کہ وہ مغفور نہیں ہے
محفوظ وہ عصیاں سے بھلا کیسے رہے گا
جو جائے معاصی ہی سے مفرور نہیں ہے