سکوں پہ واجب رہے وہ دل میں خرد پہ لازم رہے وہ حاضر
میں لکھنے بیٹھا ہوں نعت اس کی جو ہے حبیبِ خدائے قادر
ہے اسمِ محمود اس کا احمد وہ ایک منذر وہ اک مبشر
صفِ رسل میں وہی ہے اول اگرچہ بعثت ہے اس کی آخر
نبی کامل، نبی رحمت، نبی عاقب، نبی حاشر
کمال و خوبی سب اس سے مشتق وہ شمعِ حق مصدرِ مصادر
اسی کا ہے منصبِ رسالت اسی پہ ہے منتہی نبوت
اسی کے تا حشر اب نواہی اسی کے تا حشر اب اوامر
ہے شہرِ مکہ نبی کا مولد مدینۂ طیبہ ہے مسکن
خدا کا فرمان پا کے اس نے وطن کو چھوڑا بنا مہاجر
ملی ہدایت اسی کے ہاتھوں بہار آئی اسی کے قدموں
تمام رعنائیاں ہیں اس سے بہ لوحِ باطن بہ سطحِ ظاہر
جو ان کا حلقہ بگوش ہو وہ خدا کی نظروں میں مرد مومن
نہ مانے ان کو جو صدقِ دل سے نگاہِ یزداں میں وہ ہے کافر
حبیبِ خالق، منارِ عظمت، سراجِ ظلمت، حریصِ امت
بیاں ہو کیا شان اس نبی کی ہے فکر نارَس زباں ہے قاصر
نماز میں رخ ہو سمتِ کعبہ نبی کے دل کی تھی آرزو یہ
کیا خدا نے بہ پاسِ خاطر ‘فَوَلِّ وَجھَک’ کا حکم صادر
تمام وحی خدا ہے بے شک مجالِ چون و چرا نہیں کچھ
سخن ہے اس کا تمام برحق کہا جو اس نے وہ حرفِ آخر
کہیں نہ جائیں تہی بداماں یہ طالبانِ علوم و حکمت
کتابِ عظمت نشاں میں ان کی ملیں گے حکمت کے کل جواہر
حساب کے دن وہ شاہِ شاہاں پناہ گاہِ گناہ گاراں
مقامِ محمود ہے اسی کا وہ رب کا منصور سب کا ناصر
کھنچی چلی آ رہی ہے دنیا کہ شہرِ طیبہ کو آ کے دیکھے
بہ فرطِ ارماں بصد عقیدت رواں دواں ہے ہر اک مسافر
وہ شاہِ لولاک ہے بلا شک نظرؔ ہیں منت پذیر اس کے
تمام قدرت کے یہ مظاہر تمام فطرت کے یہ عناصر