اردوئے معلیٰ

سیرت حضور کی یہی مژدہ سنائے ہے

ہر رہگزر ہی شہرِ پیمبر کو جائے ہے

 

قرآن کا ہے محور و مقصود اُن کی ذات

اور الفتِ حضور ہی رب سے ملائے ہے

 

کیا معتبر ہے ذات تری کیا وقار ہے

ربِ کریم بھی تری قسمیں اُٹھائے ہے

 

محشر میں اُس شفاعتوں والے کی ہے تلاش

ہر اِک وہاں حساب سے نظریں چرائے ہے

 

سِدرہ سے آگے تیرے سفر کی ہے ابتدا

جبریلؑ بھی کھڑا یہاں سر کو جھُکائے ہے

 

ہر فردِ کائنات سے بڑھ کر ہو اُن سے پیار

ہے اُمتی وہی جو یہ رشتہ نبھائے ہے

 

حکمِ نبی پہ ناز سے خوش ہوکے جھوم کے

صدیقِؓ باوفا ہے جو سب کچھ لٹائے ہے

 

اے حبشہ کے بلالؓ ترے عشق کو سلام

ہر ِاِک اذاں میں سوز ترا جگمگائے ہے

 

ایمان کی سلامتی دینا مرے خدا

یہ دور دل سے یادِ پیمبر بھلائے ہے

 

کہتی ہے بس شکیلؔ یہی خاکِ کربلا

عشقِ خدائے مصطفیٰٔ کیا کیا کرائے ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔