اردوئے معلیٰ

شانِ حضور لکھنے سے معذور ہو گئے

لکھ لکھ کے نعت اہلِ سخن چور ہو گئے

 

عشقِ نبی کے نشہ میں جو چور ہو گئے

وہ کامراں مظفر و منصور ہو گئے

 

فی الفور ان کی یاد سے کافور ہو گئے

دل سے تمام رنج و الم دور ہو گئے

 

جو شاد کام روضۂ پر نور ہو گئے

سمجھیں کہ بار یابِ سرِ طور ہو گئے

 

دل جن کے ان کے عشق سے معمور ہو گئے

مخدومِ خلق بن کے وہ مشہور ہو گئے

 

چھوڑا جنہوں نے دامنِ پاکِ شہِ ہدیٰ

اللہ کی نگاہ میں مقہو رہو گئے

 

خلقِ عظیم کا ترے اللہ رے اثر

سر کش بھی سر جھکانے پہ مجبور ہو گئے

 

جلتے تھے جو چراغ بتوں کے جلے نہ پھر

ماہِ عرب کے سامنے بے نور ہو گئے

 

پتھر ہیں جن میں یاد نہ ان کی سما سکی

دل جن کے ان کی یاد سے معمور ہو گئے

 

ان میکشوں کا پوچھ نہ اللہ رے نصیب

پی کر تمام خم کی جو مخمور ہو گئے

 

نقشِ قدم ہے راہنمائے رہِ حیات

قول و عمل حیات کے دستور ہو گئے

 

کرتا نہیں میں بات شیاطین کی نظرؔ

انساں ہیں جو وہ آپ کے مشکور ہو گئے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ