شانِ سرکارِ بطحیٰ بڑی چیز ہے
دونوں عالم کا آقا بڑی چیز ہے
میری لوحِ جبیں کی یہ قسمت کہاں
اُن کی خاکِ کفِ پا بڑی چیز ہے
تاجدارانِ عالم کے کیا مرتبے
اُن کی گلیوں کا منگتا بڑی چیز ہے
راج والوں کی نعمت کوئی شے نہیں
کملی والے کا ٹکڑا بڑی چیز ہے
چاند تاروں میں ایسے اُجالے کہاں
اُن کی جالی کا پردا بڑی چیز ہے
ان کے در کی حضوری کا کیا پوچھنا
ان کے در کی تمنا بڑی چیز ہے
اے منورؔ تجھے اور کیا چاہیے
مصطفیٰ کا سہارا بڑی چیز ہے