شبِ دیجور کو دے خوابِ کرم کا جلوہ
آنکھ کے طاق میں رکھ نقشِ قدم کا جلوہ
زیست کے جادۂ بے سمت کی راہیں ُکھل جائیں
مجھ کو مِل جائے جو اُس زلف کے خم کا جلوہ
مَیں بھی ہوں تیرے گداؤں کے گداؤں کا گدا
میرے کشکول کو دے اپنی نِعَم کا جلوہ
اُن کی مرضی پہ ہے موقوف جہانِ رحمت
جس پہ چاہیں وہ کریں جاہ و حشم کا جلوہ
مجھ کو اک حرف عطا ہو تری مدحت کے لیے
میرے اِک حرف میں رکھ دیدۂ نم کا جلوہ
بس یہی عرض ہے مقصودؔ کی اے قاسمِ ُکل
نعت ہو لب پہ تری آخری دَم کا جلوہ