خزاں کا راج ہے ہر سو
مرے خیاباں میں
میں اس کی زد میں ہراک پھول
ہر شجر دیکھوں
گماں یہ ہے کہ مسلسل خزاں ہی پھیلے گی!
مگر مجھے تو اُمیدوں کے پھول چننے ہیں
مجھے تو سخت مراحل
سے اب گزرنا ہے
کسیلی شاموں کے کچھ ذائقے بھی چکھنے ہیں
زمیں پہ زرد ہے موسم مگر …
مگر پھر بھی
یہ جبرِ عہد، نیا تو نہیں ہے دنیا میں
یہ جبرِ عہد، زیادہ
نہیں ہے طائف سے!
جہاں رسولِ گرامی نےسختیاں جھیلیں
فقط،پیامِ صداقت، پیامِ دیں کے لیے!
اکیلی ذات نبی کی تھی اور جہاں ظالم
جہان ایسا کہ جس کا ہرایک طفلِ لعیں
لیے ہوئے تھا یدِ قہرماں میں
پتھر ہی
مگر ثباتِ نبی کو کبھی نہ آنچ آئی
سنو! پھر آپ کی تدبیر
رب کی نصرت سے
اُسی ستم گرو ظالم گروہ نے …آکر
کیا قبول وہ پیغامِ حق
بہ عجز و نیاز
پھراس جہاں میں
وہی لوگ معتبر ٹھہرے
یہ عہدِ جبرو ستم
بے پناہ …بد تر ہے
مگر اُس عہد سے کم ہے جو
اُن پہ گزرا ہےکہ اُن کے ساتھ
کوئی کارواں، خَدَم نہ حَشَم
نہ کوئی پاس سواری
نہ قوتِ نانِ جویں
مگر ہمیں تو یہ سب کچھ یہاں مُیسر ہے
زمیں پہ پھیلی ہوئی فوج
اور آسائش!
تفنگ و تیغ سے ہم لیس ہیں
مگر پھر بھی
یہ جبرِ عہد ہمیں لے رہا ہے
نرغے میں!
کوئی دلیل تو اس کی
زبانِ وقت پہ ہے؟
ندامتوں کے سمندر میں ڈوب جائیں اگر
ہم اپنے طرزِ عمل پر ذرا بھی غو ر کریں
کہ خوفِ مرگ میں ہم مبتلا ہوئے جب سے
ہم اپنا عہدِ وفا ہی
سِرے سے بھول گئے!ہم اپنے زعم میں اُمِّیدِ فتح یابی میں
خود اپنے’’عہد‘‘کی شرطیں بُھلا کے بیٹھ گئے
ملی،نویدِ ظفر تھی ہماری ملت کو
مگر وفا سے وہ مشروط تھی
بہر قیمت !
ہوا جو ہم پہ اثر
جہلِ عقل ودانش کا
تو ہم فریبِ تمنا میں آگئے ایسے
کہ اپنا عہدِ وفا ہی
سِرے سے بھول گئے!
ابھی ہے وقت کہ ’’عہدِ وفا‘‘ کا پاس کریں
وگرنہ سیلِ زماں میں تو بہتے رہتے ہیں
ہماری طرح کے بے انت
یاں…خس و خاشاک!
کہیں زمانہ اسی طرح سے ہمیں اک دن
بہا ئے اور سمندر میں غرق کر ڈالے!
مرے خیاباں میں
میں اس کی زد میں ہراک پھول
ہر شجر دیکھوں
گماں یہ ہے کہ مسلسل خزاں ہی پھیلے گی!
مگر مجھے تو اُمیدوں کے پھول چننے ہیں
مجھے تو سخت مراحل
سے اب گزرنا ہے
کسیلی شاموں کے کچھ ذائقے بھی چکھنے ہیں
زمیں پہ زرد ہے موسم مگر …
مگر پھر بھی
یہ جبرِ عہد، نیا تو نہیں ہے دنیا میں
یہ جبرِ عہد، زیادہ
نہیں ہے طائف سے!
جہاں رسولِ گرامی نےسختیاں جھیلیں
فقط،پیامِ صداقت، پیامِ دیں کے لیے!
اکیلی ذات نبی کی تھی اور جہاں ظالم
جہان ایسا کہ جس کا ہرایک طفلِ لعیں
لیے ہوئے تھا یدِ قہرماں میں
پتھر ہی
مگر ثباتِ نبی کو کبھی نہ آنچ آئی
سنو! پھر آپ کی تدبیر
رب کی نصرت سے
اُسی ستم گرو ظالم گروہ نے …آکر
کیا قبول وہ پیغامِ حق
بہ عجز و نیاز
پھراس جہاں میں
وہی لوگ معتبر ٹھہرے
یہ عہدِ جبرو ستم
بے پناہ …بد تر ہے
مگر اُس عہد سے کم ہے جو
اُن پہ گزرا ہےکہ اُن کے ساتھ
کوئی کارواں، خَدَم نہ حَشَم
نہ کوئی پاس سواری
نہ قوتِ نانِ جویں
مگر ہمیں تو یہ سب کچھ یہاں مُیسر ہے
زمیں پہ پھیلی ہوئی فوج
اور آسائش!
تفنگ و تیغ سے ہم لیس ہیں
مگر پھر بھی
یہ جبرِ عہد ہمیں لے رہا ہے
نرغے میں!
کوئی دلیل تو اس کی
زبانِ وقت پہ ہے؟
ندامتوں کے سمندر میں ڈوب جائیں اگر
ہم اپنے طرزِ عمل پر ذرا بھی غو ر کریں
کہ خوفِ مرگ میں ہم مبتلا ہوئے جب سے
ہم اپنا عہدِ وفا ہی
سِرے سے بھول گئے!ہم اپنے زعم میں اُمِّیدِ فتح یابی میں
خود اپنے’’عہد‘‘کی شرطیں بُھلا کے بیٹھ گئے
ملی،نویدِ ظفر تھی ہماری ملت کو
مگر وفا سے وہ مشروط تھی
بہر قیمت !
ہوا جو ہم پہ اثر
جہلِ عقل ودانش کا
تو ہم فریبِ تمنا میں آگئے ایسے
کہ اپنا عہدِ وفا ہی
سِرے سے بھول گئے!
ابھی ہے وقت کہ ’’عہدِ وفا‘‘ کا پاس کریں
وگرنہ سیلِ زماں میں تو بہتے رہتے ہیں
ہماری طرح کے بے انت
یاں…خس و خاشاک!
کہیں زمانہ اسی طرح سے ہمیں اک دن
بہا ئے اور سمندر میں غرق کر ڈالے!