شفیع الوریٰ کو درودوں کا عطیہ
شہِ دو سرا کو سلاموں کا ہدیہ
ہمارے لیے مکہ چھوڑا انھوں نے
چلے بستی بستی ، پھرے قریہ قریہ
حبیبِ خدا ، محسنِ کل جہاں ہیں
وہ دن کی مشقّت ، وہ راتوں کا گریہ
چمکتا تھا چہرہ قمر سے زیادہ
بھویں ان کی لمبی ، گھنی اُن کی لِحیہ
جہاں ہم کو پہنچایا کردار اُن کا
نہ بھولے ہیں راوی محمد کا حلیہ
”محمد پہ قربان جاؤں سدا میں“
ہو وردِ زبانِ دل و جاں یہ قضیہ
عمل پاس کچھ بھی نہیں ہے ہمارے
اگر ہے تو اُن کی شفاعت کا تکیہ
ہے یہ سَرسَرؔی نعت ، لیکن الہٰی
بنادے اسامہ کی بخشش کا فدیہ