شوق تدبیر کرے اور زباں ساتھ نہ دے
محضرِ نعت میں کچھ تابِ بیاں ساتھ نہ دے
شعر کے اوج پہ کیسے مَیں لکھوں نعتِ نبی
میرے احساس کا جب نُطقِ رواں ساتھ نہ دے
لکھنا تو چاہتا ہُوں منظرِ معراج، مگر
اوجِ ایقاں پہ کوئی حرفِ گماں ساتھ نہ دے
لے کے بیٹھا ہُوں تخیّل کے اُفق پر خامہ
تیری رفعت کا مگر، جذبِ نہاں ساتھ نہ دے
عہدِ موجود سے آئندہ کی تابانی تک
سب بکھر جائے اگر تیرا زماں ساتھ نہ دے
قابَ قوسین بھی تمثیل ہے اور بعد ازاں
اِک تقرّب ہے جہاں رازِ کماں ساتھ نہ دے
یاد کے لمس سے کِھلتے ہیں ثنا کے غُنچے
نعت احساس ہے، اظہار جہاں ساتھ نہ دے
شدتِ شوق میں، اس عقل کا ہے عجز عجب
پہلے تو ساتھ رہے، بعد ازاں ساتھ نہ دے
عُزلتِ ہجرِ مدینہ نے کیا ہے بے دَم
جانِ جاں تیری قسم ! یہ مری جاں، ساتھ نہ دے
یہ ترا شہر ہی اِک جائے پنہ ہے، ورنہ
بخدا اپنے قبیلے کی اماں ساتھ نہ دے
زیست منسوب رہے حرفِ ثنا سے مقصودؔ
کیا خبر عُمرِ طرح دار کہاں ساتھ نہ دے