شوق وہ ہے کہ انتہا ہی نہیں
درد ایسا ہے ، کچھ دوا ہی نہیں
دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں
اس پہ جینے کا آسرا ہی نہیں
یک بہ یک وار دوستوں کے سہے
ایسا باظرف تھا ، مڑا ہی نہیں
میں یہ کہتا ہوں مان جا اب تو
اس کی ضد ہے کہ وہ خفا ہی نہیں
داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا ہی نہیں
وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا
تو ہے ظالم کہ چیختا ہی نہیں
اس کی یادیں ہیں ، دل ہے، اور ہے غم
مجھ میں اب اور کچھ بچا ہی نہیں
آرزوئے وصال باقی ہے
تُو نہیں ہے تو کیا خدا ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی وہ ہے
وہ جو مجھ کو کہیں ملا ہی نہیں
ظلم عاطفؔ پہ ہیں جہاں بھر کے
اور کوئی درد آشنا ہی نہیں