اردوئے معلیٰ

غبارِ خاطرِ برہم کبھی کا بیٹھ چکا

کہولتوں نے بالاخر نقوش کو ڈھانپا

خموشیوں میں شکستہ ہوا خدائے سخن

زمین شق نہ ہوئی اور نہ آسماں کانپا

 

وہ ماورائے گمانِ شکست ٹوٹ چکا

وہ انتہائے سخن کا امیں خموش ہوا

جو موقلم سے سحر میں گلال بھرتا تھا

دھنک تراشنے والا سیاہ پوش ہوا

 

وہ جو سفیرِ سحر تھا، مسافرِ شب ہے

غرورِ طائرِ سدرہ قفس نشین ہوا

وہ جس کے واسطے مسند تھا آسمانِ سخن

وہ جس کے ہاتھ میں افلاک تھے زمین ہوا

 

وہ مضمحل سرِ دشتِ زیان بیٹھا ہے

کہ کہشاں بھی جسے ہاتھ کی لکیر رہی

وہ چپ ہوا، کہ کبھی جس کی ریشمی لے میں

عروسِ شعر بصد خوش دلی اسیر رہی

 

وہ راستوں میں کہیں کھو چکا کہ جس کے قدم

مسافرانِ محبت کو سنگِ میل رہے

وہ الجھنوں میں گھرا ہے کہ وہم تک جس کے

کبھی مباحثہِ عشق میں دلیل رہے

 

سخن کو کھیل جو سمجھا گیا زمانے میں

جو آبروئے سخن تھا وہ بے وقار ہوا

محالِ ظرفِ خدائی تھا ، منتقم ہونا

وہ آپ اپنے ہی معیار کا شکار ہوا

 

انا پرست ، بھلا کس کو زخم دکھلاتا

سو آپ اپنے ہی قدموں میں آ کے ڈھیر ہوا

گرا چکا تھا جو ہتھیار ایک دھوکے پر

پھر اس کے بعد ہر اک معرکے میں زیر ہوا

 

جو بار بار پِٹی ، کارزارِ ہستی میں

تو پائمال انا ایک روز پتھرائی

جہاں پہ خواب تلک قافیہ نبھاتے تھے

وہاں بچی ہے تخیل کی بے سروپائی

 

وہ خوش گلو کہ جہاں نے نواز ہوتا تھا

اب اس جہانِ فسوں میں سکوت بولتا ہے

ہزار حرف کہ سر پھوڑتے رہیں اپنا

وہ لب کشا نہیں ہوتا نہ آنکھ کھولتا ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔