شہرِ طیبہ کی ٹھنڈی ہوا چاہئے

یہ جو مل جائے پھر اور کیا چاہئے

پھر مدینہ کی جانب رواں ہیں قدم

قلبِ بیمار کو پھر دوا چاہئے

رات دن اُن کا روضہ نگاہوں میں ہو

رات دن یہ سہانی فضا چاہئے

بس یہیں پر جیوں بس یہیں پر مروں

آپ کے در پہ تھوڑی سی جا چاہئے

شکر ہے عشقِ سرور ہے از ابتداء

بس یہی عشق تا انتہا چاہئے

لذّتِ عشقِ خیر الوریٰ کے لئے

نسبتِ دامنِ مصطفیٰ چاہئے

نازنیں ہیں وہی’ دل نشیں ہیں وہی

دل کو اب نہ کوئی دوسرا چاہئے

وہ تو ہیں مائلِ لطف و فضل و کرم

اک فقط قلبِ درد آشنا چاہئے

ہے غلام آپ کا عارفِ کمتریں

آپ کا لطف اُس پر شہا چاہئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]