شہر جاتے ہیں جو ماحول بدل لیتے ہیں
وہ محبت کے سبھی قول بدل لیتے ہیں
وقت آتا ہے تو احساس کا در کھلتا ہے
لوگ سانپوں کی طرح خول بدل لیتے ہیں
آلہ ء قتل پہ ہونگے ترے ہاتھوں کے نشاں
چل مرے دوست یہ پستول بدل لیتے ہیں
چیخ پڑتے ہیں کہ کم ہو یہ اذیت ناکی
وقت کیسا بھی ہو پرہول بدل لیتے ہیں
مطلبی ان کو بھی تاریخ میں لکھا جائے
یہ پرندے بھی اگر غول بدل لیتے ہیں