اردوئے معلیٰ

صداء کوئی نہیں اب کے ، فقط دہلیز پر سر ہے

ندامت بھی ہے ، اپنے رائیگاں جانے کا بھی ڈر ہے

 

مجھے تو منطقی لگتی ہے اپنی بد حواسی بھی

مجھے لگتا ہے میں ہوں آئینے میں ، عکس باہر ہے

 

ہزاروں ہی بھنور لپٹے ہوئے ہیں جسم سے لیکن

نگاہوں میں ابھی تک الوداع کہنے کا منظر ہے

 

ترستی ہیں مری پوریں در و دیوار چھونے کو

جہاں سے خواب آتے ہیں ، وہاں اک نقرئی گھر ہے

 

بہت ہلکا ہے سو کچھ وقت لے گا فرش ہونے میں

ہوا میں ڈولتا پھرتا ہے جو ، امید کا پر ہے

 

جہانِ بے نیازی میں حیات و مرگ یکساں ہیں

ترے درویش کا ہونا ، نہ ہونا اک برابر ہے

 

مناسب ہے کہ اب میرا بھرم بھی ٹوٹ جانے دو

مسلسل بے یقینی سے کوئی افتاد بہتر ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ