صداء کوئی نہیں اب کے ، فقط دہلیز پر سر ہے
ندامت بھی ہے ، اپنے رائیگاں جانے کا بھی ڈر ہے
مجھے تو منطقی لگتی ہے اپنی بد حواسی بھی
مجھے لگتا ہے میں ہوں آئینے میں ، عکس باہر ہے
ہزاروں ہی بھنور لپٹے ہوئے ہیں جسم سے لیکن
نگاہوں میں ابھی تک الوداع کہنے کا منظر ہے
ترستی ہیں مری پوریں در و دیوار چھونے کو
جہاں سے خواب آتے ہیں ، وہاں اک نقرئی گھر ہے
بہت ہلکا ہے سو کچھ وقت لے گا فرش ہونے میں
ہوا میں ڈولتا پھرتا ہے جو ، امید کا پر ہے
جہانِ بے نیازی میں حیات و مرگ یکساں ہیں
ترے درویش کا ہونا ، نہ ہونا اک برابر ہے
مناسب ہے کہ اب میرا بھرم بھی ٹوٹ جانے دو
مسلسل بے یقینی سے کوئی افتاد بہتر ہے