اردوئے معلیٰ

صورتِ نعت نو یاب ہے آوازۂ دل

للہِ الحمد ، کہ بکھرا نہیں شیرازۂ دل

 

موسمِ مدحِ پیمبر کی نمو کاری سے

صحنِ احساس میں کِھلتا ہے گُلِ تازۂ دل

 

یادِ سرکار چلی آتی ہے ہر سانس کے ساتھ

مَیں مقفل نہیں کرتا کبھی دروازۂ دل

 

توشۂ شہرِ کرم بار ہے خاکِ اطہر

ہے یہی کحلِ بصر اور یہی غازۂ دل

 

نقش کر لے گا تصور میں جو اُن کی سیرت

پھر پڑے گا نہ بھگتنا اُسے خمیازۂ دل

 

مُرتعش ہُوں کہ مدینے سے پلٹنا ہو گا

اے خوشا بخت ! غلط نکلے یہ اندازۂ دل

 

آج کی شب ہے کسی خوابِ ضیا بار کی شب

مجھ کو مقصودؔ صدا دیتا ہے آوازۂ دل

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ