طیورِ فکر جو ان کے خیال تک پہنچے
ہمارے رنج و الم عرضِ حال تک پہنچے
سجائے ہجرِ مسلسل نے نعت کے مصرعے
براہِ مدحتِ سرور وصال تک پہنچے
مرے کریم نے حاجت روائی پہلے کی
یہ ہونٹ بعد میں حرفِ سوال تک پہنچے
حسِین ہو گی ستاروں کی کہکشاں لیکن
نہیں مجال کہ گردِ نعال تک پہنچے
ہمارا فن تو فقط نا تمام خواہش تھا
حروف نعت ہوئے تب کمال تک پہنچے
خجیل ہو کے قمر بادلوں میں چھپ جائے
نگاہ اس کی اگر ان کے گال تک پہنچے
ستارے بن کے بلندی پہ جگمگانے لگے
جو خوش نصیب شہِ خوش خصال تک پہنچے
مدینے پہنچے تو اشفاق میرے دل نے کہا
ہمارے زخمِ کہن اندمال تک پہنچے