ظُلمتوں نے غُبار ڈالا ہے
تیری ضو نے نکھار ڈالا ہے
کوئی شکوہ نہیں ہے غیروں سے
’’مجھ کو اپنوں نے مار ڈالا ہے‘‘
تُو نے آ کر اُسے جِلا بخشی
جس کو دُنیا نے مار ڈالا ہے
مر کے پہنچا ہوں آپ کے در پر
بارِ عصیاں اُتار ڈالا ہے
دل کی دنیا کو میرے آقا کی
اِک نظر نے سنوار ڈالا ہے
پیکرانِ غرور کے دل سے
زنگ سارا اُتار ڈالا ہے
عاشقوں کی یہ آزمائش تھی
اُس نے پھولوں میں خار ڈالا ہے
کب کے بگڑے معاشروں کو شہا!
تُو نے آ کر سُدھار ڈالا ہے
بس گلے میں جلیلِ رُسوا کے
تُو نے عزت کا ہار ڈالا ہے