ظہورِ نورِ ازل کو نیا بہانہ ملا
حرم کی تِیرہ شبی کو چراغِ خانہ ملا
تری نظر سے ملی روشنی نگاہوں کو
دلوں کو سوزِ تب و تابِ جاودانہ ملا
خدا کے بعد جمال و جلال کا مظہر
اگر ملا بھی تو کوئی ترے سوا نہ ملا
وہ اَوجِ ہمّتِ عالی وہ شانِ فقرِ غیور
کہ سرکشوں سے بہ اندازِ خسروانہ ملا
وہ دُشمنوں سے مدارا وہ دوستوں پہ کرم
بقدرِ ظرف ترے در سے کس کو کیا نہ ملا
زمیں سے تابفلک جس کو جرأت پرواز
وہ میرِ قافلہ، وہ رہبرِ یگانہ ملا
بشر پہ جس کی نظر ہو بشر کو تیرے سوا
کوئی بھی محرمِ اسرارِ کبریا نہ ملا
خیالِ اہلِ جہاں تھا کہ انتہائے خودی
حریمِ قدس کو تجھ سا گریز پا نہ ملا
نیاز اُس کا جبیں اُس کی، اعتبار اُس کا
وہ خوش نصیب جسے تیرا آستانہ ملا
درِ حضور سے کیا کیا ملا نہ تجھ کو حفیظؔ
نوائے شوق ملی، جذبِ عاشقانہ ملا