اردوئے معلیٰ

عاجز ہے ترا ناعتِ صد حرفِ فضیلہ

اے اوج نشاں ! صاحبِ اوصافِ جمیلہ

 

انعام ہے ، اکرام ہے ، احسان ہے واللہ

اِک فردِ زیاں اور یہ حسانی قبیلہ !

 

بے وجہ کرم یاب نہیں عبدِ خجل زاد

مدحت تری حیلہ ہے ، ترا نام وسیلہ

 

دے اپنی خطا پوش شفاعت کی پنہ دے

لے ڈوبیں گے ورنہ مجھے اعمالِ رذیلہ

 

اِک مژدۂ جاءوک سے مٹ جائے گی یکسر

یہ ہجر زدہ تلخئ اسفارِ طویلہ

 

ایمان سراپا تھے وہ اعمالِ معلیٰ

قُرآن مجسم تھے وہ اخلاقِ نبیلہ

 

کافی ہے بہ ہر شوق ترا خوانِ عنایت

شافی ہے بہ ہر خیر ترا دستِ کفیلہ

 

کیا نعت لکھے تیری یہ اِک خامۂ عاجز

کیا شان کہیں تیری یہ الفاظِ علیلہ

 

کاوش سے ورا مدحتِ عالی کی تمنا

مدحت سے فزوں تیرے مقاماتِ جلیلہ

 

موقوف ہے مرضی پہ ترے در کی حضوری

تدبیر کریں کیسے مرے حسرت و حیلہ

 

ممکن ہی نہیں نعت کے امکان کا سوچیں

مقصودؔ ! مری زیست کے لمحاتِ قلیلہ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔