عالم کی ابتدا بھی ہے تو ، انتہا بھی تو
سب کچھ ہے تو ، مگر ہے کچھ اس کے سوا بھی تو
کندہ درِ ازل پہ ترا اسمِ پاک تھا
قصرِ ابَد میں گونجنے والی صدا بھی تو
فردا و حال و ماضئ انساں یہی تو ہے
تو ہی تو ہو گا ، تو ہی تو ہے اور تھا بھی تو
یوں تو مرے ضمیر کا مسند نشیں بھی ہے
لیکن ہے شش جہات میں جلوہ نما بھی تو
تو میرِ کارواں بھی ہے ، سَمتِ سفر بھی ہے
میرا امام بھی ، مرا قبلہ نما بھی تو
بے اجْر تیرے در سے نہ پلٹے گی میری نعت
اک اور نعت کا مجھے دے گا صلہ بھی تو