عام سا اِک دن، طلوعِ مہر بھی معمول کا
راہگزارِ وقت پر لمحوں کی بگھی گامزن
اور بگھی کے تعاقب میں بگولا دُھول کا
شہر کی گلیوں میں لمبی سانسیں لیتی زندگی
اِس طرف طفلانِ بے پروا کے کمسن قہقہے
اُس طرف محوِ تلاشِ رزق لوگوں کا ہجوم
دل ۔ دھڑکتے دل ۔ بہت سی خواہشیں پالے ہوئے
آںکھیں ۔ پُر اُمید آنکھیں ۔ خوابِ فردا سے سجی
پاؤں ۔ اَن دیکھے دیاروں کی طرف ہر پل رواں
یک بیک پُر ہول ہلچل ، اِک دھماکا دلخراش
چاروں جانب خون، معصوموں کے تن کے لوتھڑے
موت خود ششدر، فلک حیران، عزرائیل گنگ
کانپتے ہاتھوں سے ٹیلی فون کرتی اُنگلیاں
سُرخ اندیشوں کی آندھی ، جان و دل کے خارو خس
اک خبر۔ گالوں پہ بہتے گرم آنسو ۔ اور بس