عجیب رہتا ہے اب تک خمار آنکھوں میں
بسا ہُوا ہے وہ شہرِ نگار آنکھوں میں
نظر میں رہتے ہیں کھِلتے ہُوئے وہ باغِ تمَر
کہ جیسے رہتی ہو تازہ بہار آنکھوں میں
اُنہیں زمانوں میں بستے ہیں زیست کے لمحے
رکھے ہُوئے ہیں وہ لیل و نہار آنکھوں میں
پسِ خیال اُترتے ہیں قافلے پیہم
قطار باندھے وہ ناقہ سوار، آنکھوں میں
کچھ اس طرح سے ہیں منظر نواز وہ منظر
فراق لاتا ہو جیسے قرار آنکھوں میں
چپک گئی ہے تصور کے شوخ چلمن سے
کبوتروں کی وہ رنگین ڈار آنکھوں میں
وہ تیرا گنبدِ خضریٰ، وہ تیرے مینارے
بصارتوں کی ہے گویا قطار آنکھوں میں
کھڑے ہُوئے تھے مواجہ پہ تیرے پروانے
خیال روکے ہُوئے تھا پھوار آنکھوں میں
کسی بھی سمت تصور کے خواب کھِلتے نہیں
عقیدتوں کا ہے یکسر حصار آنکھوں میں
اشارہ ملتے ہی چھلکے گا آنسوؤں کا ایاغ
رکھا ہُوا ہے کبھی کا اُدھار آنکھوں میں
تڑپ کے چوم لی حیرت کی سر زمیں مقصود
اُٹھا کے رکھ لیا سارا غُبار آنکھوں میں