عرضِ نیاز تشنہ لب، ذوقِ خیال خام تھا
نعتِ نبی کہاں ہوئی، حرفوں کا انتظام تھا
طاقِ وجودِ شوق میں جلتا رہا چراغ دل
جلوہ گہِ خیال میں شب کو ترا خرام تھا
ایک مدارِ کیف میں بیت گئی طلب گھڑی
صبح میں تیری یاد تھی، شام میں تیرا نام تھا
تیرے حضور میں کریم یکساں رہا معاملہ
پیچھے ترے غلام تھے، آگے ترا غُلام تھا
کوہِ حرا کی کوکھ سے اُبھری وہ صوتِ لاَ شَرِیک
جس کی خبر تمام تھی، جس کا اثر مدام تھا
خواب کے شہرِ شوق میں چمکی تھی آرزو، مگر
ایک تھا رنگِ بیکراں، ایک ہی حُسنِ تام تھا
مَیں بھی شرف کے شہر میں لایا تھا حرفِ حاضری
لب پہ تری مدیح تھی، دل میں ترا سلام تھا
آئی تھی شامِ شوق میں ایسی بھی ساعتِ نوید
تابِ نظر ذرا نہ تھی، حُسن تو زیبِ بام تھا
پیشِ مواجہ اور تھے تیرے کرم کے سلسلے
سب تھے جو تیرے خاص تھے ،میں تھاجو تیراعام تھا
قوسِ قزح میں ڈھل گئیں وقتِ رواں کی دھڑکنیں
نُور بہ لب بشیر کا کیسا عجب کلام تھا
پورے بدن میں کھِل اُٹھیں صبحِ طلب کی طلعتیں
جادۂ دل کے آس پاس تیرا جو نقشِ گام تھا