پھر ایک بار بتایا گیا ، وضاحت سے
کہ میں ہوں جذبہِ ناکام ، اور کچھ بھی نہیں
مرا یہ زعمِ خدائی ، کہ خود فریبی ہے
خیالِ خامِ دلِ خام ، اور کچھ بھی نہیں
عبث گمان کا قیدی ہوں، اور کیا ہوں میں
کبھی بھی یکتاء و نایاب شخص تھا ہی نہیں
میں جان توڑ کے کرتا رہا جسے برسوں
جنوں کی گردشِ پیہم تھی ، رقص تھا ہی نہیں
جو معجزے مجھے لگتے تھے شعبدے بھی نہ تھے
میں صرف وحشتِ خوش فہم کا شکار رہا
مرے وجود کا سچ ہے کہ سچ نہ تھا کچھ بھی
میں عمر بھر میں فقط وہم کا شکار رہا
میں خود پرست رہا اور نرگسیت میں
میں اپنی ذات زمانے سے ماوراء سمجھا
خیال و حرف کے خود ساختہ جہانوں میں
سخن طراز نہیں ، خود کو دیوتا سمجھا
میں ان حروف کی بندش میں اس طرح الجھا
کہ میری آنکھ نے منظر نئے تراش لیے
سو جب گمان کا پردہ ہٹا ، تو میں عریاں
کھڑا تھا جھینپتا ، ہاتھوں میں ارتعاش لیے
مآلِ کار ، یہ عالم ، کہ جی میں آتا ہے
کہ ہو سکوں کہیں معدوم تو میں ہو جاؤں
میں جس خمیر سے ابھرا تھا اس میں بیٹھ رہوں
میں جن خلاؤں سے آیا تھا ان میں کھو جاؤں