عشقِ احمد کا دیا دل میں جلائے رکھوں
ہر گھڑی ذکر کی محفل بھی سجائے رکھوں
کاش قدموں میں بلا لیں مجھے سرکارِ جہاں
پھر اسی در پہ جبیں اپنی جُھکائے رکھوں
باغِ طیبہ سے چنوں روز ثنا کی کلیاں
خود کو بس نعت نگاری میں لگائے رکھوں
سبز گنبد کے تلے شام و سحر بیٹھی رہوں
دل حرم پاک کے جلووں سے سجائے رکھوں
جن گزر گاہوں سے گزرے تھے کبھی شاہِ امم
خاک اُن راہوں کی میں سُرمہ بنائے رکھوں
آپ کی یاد کی خوشبو مری سانسوں میں رہے
اُسی خوشبو سے دلِ ناز بسائے رکھوں