عصرِ حاضر ، مری توہین تو مت کر پھر بھی
میں کسی عہدِ گزشتہ کا خداوند سہی
حسن دیکھے تو سہی زخم کے رِستے گوشے
عشق خاموش سہی، ظرف کا پابند سہی
سوچ لے پھر کہ میں اک بار ہی مر پاؤں گا
کھیل دلچسپ سہی میں بھی رضامند سہی
بیڑیاں ہیں تو چلو شوق کو پازیب ملی
رہ گیا طوق تو وحشت کو گلو بند سہی
میرے خآکے کی طرف دیکھ دھنک کے مالک
بے تحاشہ نہ سہی رنگ چلو چند سہی