عطا کا دستِ یقیں تھا کمال کی جانب
ابھی گماں بھی نہیں تھا سوال کی جانب
سمیٹ لے گی وہ کربِ دروں کی پہنائی
نگاہِ ناز کہ ہے میرے حال کی جانب
ہمیں نوازا ہے تیرے کرم کی رفعت نے
سفر ہمارا نہ ہو گا زوال کی جانب
نئی نمود میں چمکے گا حُسن زادِ فلک
کہ تیرے ابرو ہُوئے ہیں ہِلال کی جانب
بلال دیکھتے ہوں گے جو تجھ کو وقتِ اذاں
کمال دیکھتا ہو گا بلال کی جانب
وہ جس کو تیری عطا نے کیا غنا پرور
بڑھائے ہاتھ وہ کس کے نوال کی جانب
ترے کرم نے بنایا اُنہیں نجومِ ہُدیٰ
بڑھے ہُوئے تھے قدم جو ضلال کی جانب
مِلے ہیں زیست کو جس سے نئے اصولِ شرَف
زمانے ہیں اُسی طلعت خصال کی جانب
جو سایہ چھُوتا نہیں ہے تمھارے پاؤں کو
خیال جائے گا کیسے مثال کی جانب
بہ فیضِ نعتِ نبی یہ کرم ہُوا مقصودؔ
سخن کا جام ہے تشنہ مقال کی جانب