اردوئے معلیٰ

عیسوی سال کا جب پانچ سو ستّر اُترا

رات کے پچھلے پہر نور کا پیکر اُترا

 

میں اُسے ڈھونڈ رہا تھا کسی جانب، لیکن

وہ مری روح میں ڈھل کر مرے اندر اُترا

 

وہ عجب نام ہے جب بھی اسے جپنا چاہا

وہ محمد ہے مرے لب پہ مکرّر اُترا

 

کاسۂ دل میں تری یاد کی شبنم مہکی

اُفقِ دید پہ حیرت زدہ منظر اُترا

 

وہ مرا دستِ طلب تھا کہ جو تھک ہار گیا

یہ ترا دست عطا ہے کہ برابر اُترا

 

مَیں اُسے حیطۂ ادراک میں لاؤں کیسے

وہ ابھی زہن میں آیا تھا کہ دل پر اُترا

 

مَیں نے مقصودؔ تراشا تو تھا اک نعت محل

وہ مگر قریۂ احساس سے اوپر اُترا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات