گل و صنوبر و سرو سمن میں آگ لگی
پرِ عنادلِ شیریں دہن میں آگ لگی
دھواں ہے شعلے ہیں سارے چمن میں آگ لگی
تری پناہ خدایا وطن میں آگ لگی
چمن سے اہلِ چمن کی عداوتیں توبہ
خود اپنی قوم و وطن سے عداوتیں توبہ
حسد کی آگ میں جل کر شرارتیں توبہ
ابل پڑی ہیں دلوں کی کثافتیں توبہ
اٹھا مجیب وہاں لے کے فتنۂ دجال
اٹھائے سیکڑوں فتنے بہ عذرِ استحصال
درونِ پردہ بنا اندرا کا وہ دلال
گیا اسی کی ہی سازش سے مشرقی بنگال
نہ دل میں اس کی رہا جذبۂ مسلمانی
زبانِ فتنہ سے کی اس نے زہر افشانی
بہاریوں کا ہوا سخت دشمنِ جانی
بہا وہ خون کا دریا رواں ہو جوں پانی
بچے نہ جتنے بھی رہتے تھے غیر بنگالی
خدا نے جن کو بچایا وہی بچے خالی
نہ ہم سے پوچھ کہ نقصان کیا ہوا مالی
بہا وہ خوں کہ سمندر پہ چھا گئی لالی
کیا ہے جرمِ بغاوت برائے بنگلہ دیش
نہ اس کو یاد رہا کچھ سوائے بنگلہ دیش
ملی خدا کی طرف سے سزائے بنگلہ دیش
بنا ہے گوشۂ زنداں بجائے بنگلہ دیش
پڑے گا اور ابھی تازیانۂ فطرت
ملے گی اور بھی اُن کو ندامت و ذلت
مٹے گا ان کا تکبر مٹے گی سب نخوت
کہے گا ایک سے اک وائے شو مئی قسمت
ذو الانتقام خدا ہے خدا عزیز و مجید
بچا نہ اس کی پکڑ سے کوئی پکڑ ہے شدید
کیا ہے قتلِ مسلماں تو ہم سے سن لیں وعید
خلودِ نارِ جہنم نظرؔ عذابِ مزید