اردوئے معلیٰ

فقیر کاسہ بکف ہے آقا صدا لگاتا ہے بہرِ بخشش

لیے ہے سر پر عمل کی گٹھڑی نہیں کچھ اس میں سواے لغزش

 

یہ ایک مدت سے شہرِ ہجر و فراق سے محوِ التجاء ہے

یہ ایک مدت سے شہرِ نور و کرم کی دل میں لیے ہے خواہش

 

میں ڈھونڈتا ہوں ہر اک زباں میں، سبھی حروف ان کی شاں کے شایاں

ہیں حرف معذور، نطق بے بس کرے یہ کیسے تری ستائش

 

عجیب پر نور کیف آور فضا حرم کی ہے میرے آقا

عجب تحیر میں صحنِ طیبہ میں دیکھتا ہوں کرم کی بارش

 

کرم وہ فرمائیں روزِ محشر سکون مجرم کو تب ملے گا

ہلاکتوں سے بچائیں مجھ کو کریم میرے یہ ہے گزارش

 

بندھی ہے ڈھارس دعائے سلِّم کے آسرے پر رواں دواں ہیں

کریم آقا کرم سے اپنے سنبھالتے ہیں قدم کی جنبش

 

عبث ہے کارِ سخن سراسر اگر نہ ہو حسنِ نعتِ سرور

قبولِ دربار کرلیں آقا یہ اپنے منظر کی خام کوشش

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات