قطرے سے کہاں ممکن توصیف سمندر کی
ہو کیسے رقم مجھ سے اب نعت پیمبر کی
ہے چشم عطا مجھ پر یہ خالق اکبر کی
جاری میرے ہونٹوں پر نعت شہہ قنبر کی
اک دم سے مہک اٹھی، پرنور ہوئی محفل
جب بات چلی تیرے گیسوئے معنبر کی
خوشبوئے شہہ والا آنے لگی کاغذ سے
لکھی جو سر کاغذ مدحت علی اکبر کی
جز ذات ابو طالب کس نعت گو شاعر نے؟
نعت شہہ والا کی پیچیدہ مہم سر کی
پاکیزہ ہے کس درجہ آغوش ابوطالب
اس ذات مطہر نے تربیت سرور کی
"حسان” بھی "دعبل” بھی "بیدم” بھی یہی بولے
توصیف پیمبر ہے، معراج سخنور کی
محبوب الہی کے در پر جو نہیں جھکتا
کھائے گا بہت ٹھوکر دنیا میں وہ در در کی
صد بارش رحمت کی اس پیکر رحمت نے
جب اہل زمانہ نے کی بارشیں، پتھر کی
مجھ کو بھی بلا لیجئے اک بار مدینے میں
آقا یہی خواہش ہے بس اس دل مضطر کی
مٹی در احمد کی جس روز ملی اس پر
نوری ہے جبیں تب سے، نوری کے مقدر کی