لب پہ صلِ علیٰ کے ترانے اشک آنکھوں میں آئے ہوئے ہیں

یہ ہوا یہ فضا کہہ رہی ہے آقا تشریف لائے ہوئے ہیں

جن کی خاطر یہ عالم بنایا اپنے گھر جن کو رب نے بلایا

اے حلیمہ یہ تیرا مقدر وہ ترے گھر میں آئے ہوئے ہیں

کیسے کہہ دوں وہ حاضر نہیں ہیں کیسے مانوں یہ ممکن نہیں ہے

اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو وہ تصور میں آئے ہوئے ہیں

آج پوری ہوئی دل کی حسرت کیوں نہ جی بھر کے کرلوں زیارت

قبر میں اے فرشتو نہ آنا میرے سرکار آئے ہوئے ہیں

نام نبیوں کے بے شک بڑے ہیں عظمتوں کے نگینے جڑے ہیں

مقتدی بن کے پیھچے کھڑے ہیں وہ جو پہلے سے آئے ہوئے ہیں

میں مدینے کی گلیوں کے قرباں جن سے گزرے ہیں شاہِ مدینہ

اس طرح سے مہکتے ہیں رستے عطر جیسے لگائے ہوئے ہیں

چھوڑ کر در بدر کا ٹھکانا اے کمال ان کے در پہ ہے جانا

ہم سے لاکھوں برُوں کو جو اپنا خاص مہماں بنائے ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]