اردوئے معلیٰ

لذتِ کام و دہن سے ماورا مقصود ہے

ائے جنوں ، ایسا بھی کوئی ذائقہ موجود ہے؟

 

ایک پروازِ تخیل کا نہ ہو گر آسرا

تو فقط حدِ نظر تک آسماں محدود ہے

 

خاک کیا آب و ہوا کا جزو ٹھہری ہے کبھی؟

سو یہ پروازیں عبث ہیں ، ڈوبنا بے سود ہے

 

اس قدر الجھے ہیں باہم عمر کے ریشے یہاں

شب گزیدہ ہے سحر تو شب سحر آلود ہے

 

عشق کو درپیش فانی جسم کی بے چارگی

شوقِ آتش زیرِ پاء ، یہ راہ بھی مسدود ہے

 

نرگسیت کا وہ عالم ہے کہ آشفتہ سری

آپ سجدہ ریز ہے اور آپ ہی مسجود ہے

 

رنگ اڑ جاتا وگرنہ آج تیرے روبرو

وہ تو وحشت کا بھلا ہو رنگ ہی مفقود ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات