شام کے وقت خُنک دُھند میں لپٹا ہوا شہر
دُور آفاق کی وُسعت میں کہیں
مضحمل چاند تھکے ہارے مسافر کی طرح
مرحلہ وار تھکن سہتا ہوا
ابرِ آوارہ سے کچھ کہتا ہوا
شہر والوں کی نگاہوں میں عیاں
عظمتِ رفتہ کے گم گشتہ چراغ
گلی کوچوں میں اُسی سلطنتِ عہدِ گذشتہ کے نشاں
جو کراں تا بہ کراں پھلی تھی
جس پہ سورج نہیں ہوتا تھا غروب
!رہ گیا ایک جزیرہ، کیا خوب
ٹیمز دریا کی جنوں خیز روانی میں کہیں
رُخ ِ ماہتاب کا رقص
سانولے رنگ کے پانی میں کہیں
سرمئی شام کا عکس
اور دریا کے کنارے پہ کسی بینچ کے پاس
میں تری یاد میں گُم
اپنی خاموش اُداسی کو بدن پر اوڑھے
ہنستے گاتے ہوئے لوگوں سے پرے
شہرِ آباد میں گم
میری خاموش نگاہوں میں عیاں
اپنی اُس سلطنتِ عشقِ گذشتہ کے نشاں
جو تری اور مری ہستی تھی
جس پہ سورج نہیں ہوتا تھا غروب
!رہ گیا داغِ تمنا ، کیا خوب