لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنا دیا
اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنا دیا
پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر
دل کو ترے خیال نے محشر بنا دیا
صادق تھے ہم بھی جذبۂ منزل میں اس قدر
رستے کا ہر سراب سمندر بنا دیا
لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری
ہم نے جبین عشق کا زیور بنا دیا
شہر وصال دیکھنا چاہا پلٹ کے جب
مجھ کو طلسم ہجر نے پتھر بنا دیا
بخشی کسی کو گہری خموشی مگر مجھے
اک عشق رائگاں نے سخنور بنا دیا
رکھتے تھے ہم بھی پہلو میں ہیرا سا دل کبھی
آلام روزگار نے کنکر بنا دیا