لوگ الجھتے رہے مداری سے
سانپ نکلا نہیں پٹاری سے
مصرعۂ تر نکالتا ہوں میں
دل کے پودوں کی آبیاری سے
بیچ دیں گے سبھی خسارے تک
یہ جو لہجے ہیں کاروباری سے
ہم نئی لے کے بن گئے موجد
اپنے اک غم پہ آہ وزاری سے
میرا دشمن تو ہے کھلا دشمن
مجھ کو خطرہ ہے بس حواری سے
تو مرا انتظار تھا ہی نہیں
کھل گیا اب کے بیقراری سے