اردوئے معلیٰ

لکھ رہا ہوں مدحتِ شاہنشہِ گردوں سریر

المدد اے خالقِ کون و مکاں نعم النصیر

 

ذکرِ خیرِ مصطفیٰ ہے موجبِ خیرِ کثیر

ہو خدا راضی قلوبِ بندگاں ہوں مستنیر

 

فیض یابِ نور تھا ہر ذرۂ کون و مکاں

جلوہ گر تھا عرش پر جس رات وہ بدرِ منیر

 

دیدنی ہے فقر اس کا جاہِ شاہانہ کے ساتھ

زندگی کر دی بسر بر لقمۂ نانِ شعیر

 

اس کے نورِ باطنی کا یہ تصرف مرحبا

ہم نشیں اس کے رہے جو، ہو گئے روشن ضمیر

 

راہِ حق سے تا نہ بھٹکیں رہروانِ زندگی

صفحۂ ہستی پہ اس نے کھینچ دی سیدھی لکیر

 

دین و دنیا دونوں بن جائیں اگر ہے آرزو

اس کے بتلائے ہوئے رستوں پہ چلنا ناگزیر

 

جس میں جتنا ظرف ہو حکمت کے موتی رول لے

از کتابِ اَلعزیز اتری جو اس پر بے نظیر

 

اس کی خوشنودی ملے تو رب کی خوشنودی ملے

یعنی خوشنودی ہے اس کی موجبِ فوزِ کبیر

 

حشر کی رسوائیوں سے ڈر رہا ہوں میں شہا

ہو کرم کی اک نظرؔ مجھ پہ بوقتِ دار و گیر

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔