اردوئے معلیٰ

مانا کہ عرضِ حال کے قائل نہیں تھے ہم

سمجھے نہ کوئی ایسی بھی مشکل نہیں تھے ہم

 

کچھ ہو گئیں خطائیں تو معذور جانئے

انسان ہی تھے جوہرِ کامل نہیں تھے ہم

 

اپنے ہی شہر میں ہمیں مہماں بنا دیا

اتنی مدارتوں کے تو قابل نہیں تھے ہم

 

طوفاں ملے جو ہم سے تو شکوہ نہ کیجئے

اک بحرِ اضطراب تھے ساحل نہیں تھے ہم

 

مٹ جاتے ایک موجِ گریزاں کے زور سے

نقشِ قدم تو برسرِ ساحل نہیں تھے ہم

 

ق

 

ہم اُٹھ گئے تو ہو گئی برہم بساط کیوں؟

اک ہم نشیں تھے رونق محفل نہیں تھے ہم

 

ہم کھو گئے تو رُک گئے کیوں اہلِ کارواں؟

اک ہمسفر تھے جادۂ منزل نہیں تھے ہم

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔