ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے

یہ غلط فہمی رہی ہم کو ، ہمارا کوئی ہے

یہ جو بہتے ہوئے لاشے ہیں ، کہاں جاتے ہیں ؟

بول دریائے ستم تیرا کنارہ کوئی ہے ؟

بس ہوا ملتے ہی ہر یاد بھڑک اٹھتی ہے

یوں سمجھ راکھ کے اندر بھی شرارا کوئی ہے

کوئی دستک ہی نہ تھی اور نہ "​میں ہوں”​ کی صدا

میں نے چوکھٹ پہ کئی بار پکارا ، کوئی ہے ؟

تو جو عامل ہے تو پھر توڑ بتا وحشت کا

اس محبت کی اذیت کا اتارا کوئی ہے ؟

آج کل تم بھی اکیلے ہو سنا ہے میں نے

تم تو کہتے تھے مرے بعد تمہارا کوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]