اردوئے معلیٰ

مجھ کو نہیں ہے گوہر و یاقوت کی اُمنگ

زیبا میری جبیں کو درِ مصطفی کا سنگ

 

تجھ سے کلاہِ قیصر و کسریٰ میں لرزشیں

ہے زرد تیرے خوف سے لات و ہُبَل کا رنگ

 

وہ جلوہ گاہیں جو ترے قدموں کی دھول ہیں

روح القدس کی فکر ہے ان منزلوں میں دنگ

 

تُو نے شعورِ عظمتِ آدم کے بوئے بیج

تُو نے سکھائے بدّوؤں کو زندگی کے ڈھنگ

 

اُسوہ ترا جہاں میں جِلا بخش اگر نہ ہو

لگ جائے کائنات کے فکر و نظر کو زنگ

 

احساس و فکر و فن تری تائید کے لئے

تیرے ثنا گزار ہیں سب حرف و صوت و چنگ

 

میں اس پر مُفَتخر ہوں کہ ناتا ہے آپ سے

ورنہ میں کیا ہوں، کیا مرا ناموس و نام و ننگ

 

رحمت! کہ میرا جسم ہے میدانِ کارِ زار

مدت سے چل رہی مرے ذہن و دل میں جنگ

 

اک بار حاضری کی سعادت تو ہو نصیب

حُبِ نبی کے نشے میں جھومے گا انگ انگ

 

خیر البشر کے عشق میں گاؤں گا ماہیے

بطحا کی خاک اوڑھ کے بن جاؤں گا ملنگ

 

طائف میں تیرے خون کی بوندوں کا واسطہ

ترے کرم سے قبرِ گہنگار ہو نہ تنگ

 

ہنگامِ حشر تیری شفاعت کے سائے میں

انورؔ ہو نعت خواں ترے ہمراہیوں کے سنگ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ