محورِ دو سرا پہ قائم ہے
زیست ان کی رضا پہ قائم ہے
نظمِ نطق و نظامِ حرف و ہنر
تیری مدح و ثنا پہ قائم ہے
نیلگوں آسمان کی رفعت
آپ کے نقشِ پا پہ قائم ہے
موجۂ خندۂ گلِ خوش رنگ
تیرے لطف و عطا پہ قائم ہے
یہ نظامِ جہانِ عفو و کرم
آپ ہی کی رضا پہ قائم ہے
سب کو دیتا ہے وہ طفیلِ نبی
یہ عقیدہ ُخدا پہ قائم ہے
کارگاۂ حیات میں مقصودؔ
سارا منظر عطا پہ قائم ہے