مدحِ حسنِ تام جاری کو بہ کو ہے
لمحہ لمحہ حسنِ کل کی گفتگو ہے
حاصلِ نطق و بیاں ہے ذاتِ احمد
آپ جیسا دوسرا نہ خوبرو ہے
مقصدِ عمرِ رواں ہے نعت تیری
دیدۂ حیرت کو تیری جستجو ہے
مرکزِ نکہت ہے شہرِ مصطفی تو
اس لیے ہر ایک کوچہ مشکبو ہے
اک عجب ہی کیف میں ہے قلبِ عاصی
جب سے جانا معنئی لاتقنطوا ہے
کربِ دوراں میں ترا یہ نامِ نامی
دافعِ رنج و بلا ہے خیر خو ہے
حجرۂ رحمت پہ نوری سبز گنبد
خوب ہی رحمت لٹاتا چار سو ہے
مطلع و مقطع مرے نامے کا آقا
بس نشیدِ نور ہو یہ آرزو ہے
اوجِ بے حد پر ہے منظرؔ آج قسمت
تو سنہری جالیوں کے روبرو ہے