مدینے کا دل میں خیال آ گیا
جبینِ سخن پر جمال آ گیا
نہیں جس کی کوئی مثال آ گیا
وہ ماہِ عرب خوش خصال آ گیا
بڑھا جانبِ کعبہ جب ابرہہ
ابابیلوں کو اشتعال آ گیا
ہوا ماہِ بطحا فلک پر طلوع
عروجِ بتاں کو زوال آ گیا
ہوا نور طیبہ میں جب منتقل
رخِ زندگی پر جمال آ گیا
چڑھا پھر سخن پر عقیدت کا رنگ
پہن کر نئے خدوخال آ گیا
چلے قافلے سوئے شہرِ نبی
وہی حاضری کا سوال آ گیا
حضور آپ کے در کی چھاؤں کی خیر
میں غم سے ہوا جب نڈھال آ گیا
محبت کی مظہر عجب ہے کشش
حبش سے مدینے بلال آ گیا