مرا جذبِ دروں افسانۂ محفل نہ بن جائے
ٹھہر اے بے قراری ہر بنِ مُو دل نہ بن جائے
وہ ڈرتے ہیں اٹھاتے فتنۂ دار و رسن تازہ
کہ میرے صبر کی یہ آخری منزل نہ بن جائے
مری آنکھوں میں چارہ گر ابھی ماضی کے نقشے ہیں
ترا دستِ شفا پھر پنجۂ قاتل نہ بن جائے
مرا ذکرِ محبت آج کیوں احباب لے بیٹھے
مری بربادیٔ دل بھی کسی قابل نہ بن جائے
مچی ہے دھوم ہر سو کوچہ ہائے نجد میں ایسی
مرا جوشِ جنوں پردہ در محمل نہ بن جائے
ستم میں بھی تکلف کر رہے ہیں آج وہ شاید
تڑپ بڑھ کر میری وجہِ سکون دل نہ بن جائے
مجھے ہے خوف اس وارفتگیٔ شوق سے شیداؔ
ستارہ آرزو کا پھر مہِ کامل نہ بن جائے