مرحبا کیا شان کیا رُتبہ ترا
مدح گو ہے خود شہا مولیٰ ترا
عقلِ عالم بھی رسا جس تک نہیں
مرتبہ ہے وہ مرے شاہا ترا
رب نہ پھر تخلیق کرتا کُچھ کبھی
ہوتا گر مقصود نہ ہونا ترا
جس سے آگے پر جلیں جبریل کے
اُس سے بھی آگے ہُوا جانا ترا
بے زباں سب ہوگیا نُطقِ عرب
اِس قدر تھا دِل نشیں خُطبہ ترا
دے دئیے رب نے خزانے سب تُجھے
کھا رہا ہے کُل جہاں صدقہ ترا
مُٹ گئے سب مِٹتے ہیں مِٹ جائیں گے
نہ مِٹا ہے نہ مِٹے چرچہ ترا
آج بھی ہےخوب تیری دھوم دھام
کل بھی ہو گا دھوم سے شُہرا ترا
اُنگلیوں سے خوب چشمے بہہ گئے
فیض پر ہے جُود کا دریا ترا
حشر میں سب اوّلین و آخریں
دیکھ لیں گے مرتبہ آقا ترا
کام محشر میں بنے گا ہی نہیں
جب تلک ہوگا اِشارہ نا ترا
نار سے محفوظ ہو اُس کا بدن
دل میں جو رکھے ادب آقا ترا
جانے تُجھ کو بس ترا ربِ کریم
شان کیا ہے مرتبہ ہے کیا تیرا
مُلتجی ہُوں آخری جب وقت ہو
میرے لب پر ہو شہا کلمہ تیرا
بس یہ مرزا کے لئے اعزاز ہے
تیرا منگتا تیرا سگ شیدا تیرا