مری اداسی کا نقش پا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل
یہ غم کی راتوں کو جانتا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل
کسی کی آنکھوں میں دھیرے دھیرے اتر رہا ہے نمی کا بادل
قلم سے کس کے نکل رہا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل
شکستہ کاغذ پر آنسوؤں کا بنا ہوا ہے جو ایک تالاب
وہ میری آنکھوں سے بہہ رہا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل
اٹھائی کل رات ڈایری اور میں نے کر ڈالی نذر آتش
سو ساتھ اس کے ہی جل گیا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل
کہ دل میں جتنی اذیتیں تھیں قلم سے طاہرؔ انہیں لکھا ہے
غزل کی صورت میں ڈھل چکا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل