مری سرکار کا جلوہ عیاں ہے
سرور و کیف و مستی کا سماں ہے
چلو چلتے ہیں دربارِ نبی میں
خُدا کا فضل بے پایاں وہاں ہے
ملے گی اُن کے در سے رہنمائی
نہیں تشکیک نہ کوئی گماں ہے
ہے اُن کا در پناہ گاہِ غریباں
فقیروں کے لیے دارالاماں ہے
جھُکاتا ہوں میں سر آقا کے در پر
جہاں آباد اِک تازہ جہاں ہے
یہاں پر وہ سکوں، وہ دِلکشی ہے
مرے آقا کا گھر، باغِ جناں ہے
ظفرؔ جھکتا ہے اُن کے آستاں پر
نہیں پھر ہوش رہتا ہے کہاں ہے