مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں

میں سانس لوں تو مرے یار سانس لیتے ہیں

ہم ایک دشت میں دیتے ہیں زندگی کی نوید

ہمارے سینے میں آزار سانس لیتے ہیں

کبھی تو وقت کی گردش تھکا بھی دیتی ہے

سو تھام کر تری دیوار سانس لیتے ہیں

اکھڑنے لگتی ہیں سانسیں الجھ کے سانسوں سے

پھر اس کے بعد لگاتار سانس لیتے ہیں

یہ واہمے سے مرے دل میں بے سبب تو نہیں

تری خموشی میں انکار سانس لیتے ہیں

خطوط پھٹنے لگے مٹ گئی ہیں تحریریں

سنائی دیتے ہیں افکار سانس لیتے ہیں

کہانی کار نے انکار ہی دکھایا ہے

تمام لفظوں میں اظہار سانس لیتے ہیں

جو چھو کے دیکھیے تو زندگی نہیں ملتی

زبیر کس لئے بیکار سانس لیتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]