مرے شہر ذرّہ نواز کا وہی سر پھرا سا مزاج ہے
کبھی زیبِ سر ہے غبارِ رہ، کبھی زیرِ پا کوئی تاج ہے
کہیں بے طلب سی نوازشیں، کہیں بے حساب محاسبے
کبھی محسنوں پہ ملامتیں، کبھی غاصبوں کو خراج ہے
وہی بے اصول مباحثے، وہی بے جواز مناقشے
وہی حال زار ہے ہر طرف، جو روش تھی کل وہی آج ہے
وہی اہلِ حکم کی سازشیں، وہی نفرتوں کی سیاستیں
نہیں بدلا طرزِ منافقت، وہی مصلحت کا رواج ہے
کبھی چہرہ پوش ندامتیں، کبھی سینہ زور بغاوتیں
اک اترتے چڑھتے فشارِ دم کے اثر میں سارا سماج ہے
کوئی درد ہو کوئی زخم ہو، وہی میٹھے زہر کی گولیاں
کوئی عارضہ ہو کہ سانحہ، وہی عارضی سا علاج ہے
سر شہر یاراں گئے تھے ہم کہ چُکا کر آئیں گے واجبات
پہ بڑھا کے آ گئے قرضِ جاں جو محبتوں کا بیاج ہے